مندرجات کا رخ کریں

ابراہیم بن اغلب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابراہیم بن اغلب
(عربی میں: إبراهيم بن الأغلب ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 756ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خراسان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 جولا‎ئی 812ء (55–56 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قیروان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد زیادۃ اللہ اول   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
امیر افریقیہ و مغرب الادنیٰ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
9 جولا‎ئی 800  – 5 جولا‎ئی 812 
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابراہیم اوّل بن اغلب، دولۃ الاغالبہ کا بانی اور افریقیا کا پہلا امیر تھا۔

خاندان[ترمیم]

نام ونسب اور پیدائش[ترمیم]

ابراہیم کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ علّامہ ابن حزم کےمطابق اُس کا مکمل نام و نسب یہ ہے:

ابو عبد الله ابراهيم بن الاغلب بن سالم بن عقال بن خفاجة بن عباد بن عبد الله بن محمد بن سعد بن حرام بن سعد بن مالك بن سعد بن زيد مناة بن تميم بن مر بن أد بن عمرو بن إلياس بن مُضَر بن نزار بن معد بن عدنان السعدي التميمي

اُس کی پیدائش 140ھ (757ء) کو مرو الرود میں ہوئی تھی۔

خاندان[ترمیم]

ابراہیم کا تعلق عربی قبیلہ بنو تمیم سے تھا۔ یہ قبیلہ قبائل عرب میں بڑے مرتبہ کا حامل اور کثیر آبادی رکھتاتھا۔ خلیفہ ثانی عُمر فاروقؓ کے دور خلافت میں اس قبیلے کے افراد خُراسان کی فتوحات میں شامل رہے تھے اور وہیں بس گئے تھے۔ اموی حکمران ہشام بن عبد الملک نے فتح خُراسان میں بنو تمیم کی شراکت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:

بے شک بنو تمیم، اہل خُراسان کی آبادی کا غالب حصّہ ہیں۔

ابو عبیدہ البصری نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ دیوان الجند کے کھاتوں میں بنوتمیم کے مجاہدین کی تعداد (96ھ کے اعداد و شمار کے مطابق) 24 ہزار سے بھی زائد ہے۔

اجداد[ترمیم]

ابراہیم کے آباء و اجداد بنو عباس کے نقباء میں سے تھے اور بنو اُمیہ کی حکومت کے خاتمہ اور بنو عبّاس کی حکومت کے قیام میں اُن کا بھی حصّہ تھا۔

والد[ترمیم]

اُس کا باپ اغلب ایک خُراسانی عرب تھا۔ اغلب تحریک عبّاسیہ میں ابُو مسلم خُراسانی کا ساتھی تھا۔ خلافت عبّاسیہ کے قیام پر 765ء میں ابو جعفر المنصور نے اُسے افریقیا کا گورنر تعینات کیا گیا۔ عبّاسی گورنر کی حیثیت سے 767ء تک اُس نے حکومت کی، 767ء میں الحسن بن حرب نے بغاوت کر کے اُسے قتل کر ڈالا۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

ابراہیم نے بہت کم عمری میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ مزید تعلیم پانے کے لیے اُسے مصر بھیج دیا گیا جہاں وہ لیث بن سعد کی شاگردی اختیار کی۔ لیث بن سعد اُسے تکریم سے نوازتے اور دیگر شاگردوں پر فوقیت دیتے تھے۔ لیث بن سعد نے اُسے قیادت اور سیاست کی صفات اور حکومتی اُمور سے متعلق ضروری معاملات کی بھی تعلیم دی۔ وہ اُس کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ اس لڑکے کی شان نرالی ہو گی۔

افریقا واپسی[ترمیم]

تعلیم سے فراغت پانے کے بعد ابراہیم نے مصر میں مزید رہنا پسند نہ کیا اور بارہ افراد کے ہمراہ افریقا کا رُخ کیا۔ تب افریقا پر ہرثمہ بن اعین گورنر تعینات تھا۔ 179ھ (795ء) میں ابراہیم وطن پہنچا تو ہرثمہ نے اُسے اعزاز سے نوازا۔ دو سال بعد ہرثمہ کو خلیفہ ہارون الرشید نے منصب سے برطرف کر کے ابن مُقاتل کو گورنری پر فائز کیا۔ یہ شخص برے اخلاق کا مالک اور سیاست کاری میں نااہل تھا چناں چہ اپنے مظالم اور غلط پالیسیوں کے سبب سپاہیوں اور رعیت میں غیر مقبول ہو گیا۔ تیونس کے ایک امیر تمام بن تمیم نے اُس کے خلاف بغاوت کر کے اُسے شکست دی اور جلاوطن کر کے خود گورنر بن بیٹھا۔ اس انقلاب کے وقت ابراہیم قیروان سے بہت دُور زاب میں موجود تھا اور وہاں کی امارت پر فائز تھا۔

سیاست کا آغاز[ترمیم]

پہلا سیاسی عہدہ[ترمیم]

795ء میں خلیفہ ہارون الرشید نے ابراہیم کو زاب کا گورنر تعینات کیا تھا۔ یہ اُس کا پہلا قابل ذکر سیاسی عہدہ تھا۔ اس عہدہ پر رہتے ہوئے اُس نے افریقیا کے عبّاسی گورنر ابن مُقاتل کے خلاف رونما بغاوت کچلنے میں بڑی مدد فراہم کی اور تمام بن تمیم کو 800ء میں شکست دے کر قیروان سے بے دخل کر دیا۔

دربار خلافت سے انعام[ترمیم]

جب خلیفہ تک یہ حالات پہنچے تو اُس نے افریقا میں فسادات اور بغاوتوں کی کثرت، مشرق میں عراق و فارس اور خُراسان میں جاری سیاسی انتشار، اندلس میں امویوں کے بڑھتے ہوئے حکومتی اثرات اور مغرب اقصیٰ میں ادریسیوں کے عروج کے پیش نظر یہ مناسب سمجھا کہ ابراہیم کو مستقل گورنری پر فائز کر دے۔ چناں چہ اس خدمت کے صلہ میں دربار خلافت سے اُسے 9 جُولائی 800ء کے روز افریقیا کی امارت سے نواز دیا گیا اور 40 ہزار دینار کے سالانہ خراج کے عوض اُسے خُود مختاری بھی عطا کی گئی۔ اب افریقا کی امارت مستقل بنیادوں پر اُس کی تحویل میں آ چکی تھی۔

امارت کا قیام[ترمیم]

اس نوازش کے سبب ابراہیم اور اُس کے جانشینوں کے لیے اپنی خاندانی امارت کا قیام ممکن ہو سکا۔ اس طرح عبّاسیوں کے زیر فرمان 800ء (184ھ) میں سلطنت بنو اغلب کی بنیاد رکھی گئی۔

دور حکومت[ترمیم]

بربری بغاوت کاخاتمہ[ترمیم]

ابراہیم نے بربروں کی بغاوت کچلنے میں کامیابی پائی جو عظیم بربری بغاوت کا ہی ایک تسلسل تھی اور بنو امیہ کے اواخر دور سے مسلم حاکموں کے لیے درد سر کا باعث بنی ہوئی تھی۔ تاہم اس کامیابی کا تاوان شمال مغربی افریقا کے شمالی علاقوں کے نقصان اور مقامی بربروں کو خوارجی یا شیعی عقائد پر برقرار رہنے کی اجازت دینے کی صورت میں ادا کرنا پڑا۔ شیعی عقائد کی یہ برقراری ایک صدی بعد فاطمیوں کے عروج اور اغلبیوں کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

بغاوتیں[ترمیم]

ابراہیم کے عہد امارت میں اگر اغالبہ کی داخلی سیاست پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم اور اُس کے جانشینوں کو تیونس اور قیروان کے عرب آباد کاروں کی جانب سے مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اغلبی حکمرانوں کے یہ سیاسی مخالف بنو اغلب کے اُن امتیازات کی بنا پر اغلبیوں سے حسد کرتے تھے جو اُنھیں دربار خلافت سے حاصل تھے۔ ابراہیم کی حیثیت دیگر صوبائی گورنرز کے مقابلہ میں کہیں برتر تھی اور وہ تمام اُمور میں خُود مختار بھی تھا۔ اغالبہ کی مخالفت میں یہ آباد کار مقامی آبادیوں پر بھی مظالم روا رکھتی تھی۔

اُن کی جانب سے ابراہیم کو اپنے دور حکومت میں دو بڑی بغاوتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ پہلی بغاوت قیام امارت کے دو ہی سال بعد 802ء میں برپا ہوئی جس کی قیادت حمدیس بن عبد الرحمان کر رہا تھا۔ دُوسری بغاوت کا سرغنہ عمران بن مُخلّد تھا جس نے 809ء میں بغاوت کا علم لہرایا۔

دار الامارت کا قیام[ترمیم]

عرب آباد کاروں کی بغاوتوں کے نتیجہ میں دار الحکومت کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی تھی چناں چہ اُس نے قیروان کے پاس العبّاسیہ (یا القصر القدیم) نام کا ایک نیا شہر بسا کر اُسے اپنا دار الحکومت بنایا۔ یہ شہر قیروان کے عین جنوب میں آباد کیا گیا تھا۔ اغلبی ریاست کے دار الحکومت کا قیام ابراہیم کا ایک اہم کارنامہ ہے۔

قیروان میں معتزلی عقائد کا زور[ترمیم]

عرب آباد کاروں کی جانب سے اغالبہ کی سیاسی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابراہیم معتزلی عقائد کا حامل اور قیروان کے مالکی فقہاء کا ناقد تھا، اس بنا پر اُس نے 806ء میں قاضیٔ قیروان (شریعت مجسٹریٹ) کے طور پر ایک معتزلی امام ابُو محرز کو مقرر کیا تھا جس کے نتیجہ میں لازمی طور پر قیروان میں معتزلی عقائد کو سیاسی عروج بھی نصیب ہوا۔

حبشی غلاموں کی درآمد[ترمیم]

عرب آباد کاروں پر اپنا انتظامی اور بالخصوص عسکری امداد کا انحصار کم سے کم کرنے کی غرض سے ابراہیم نے بڑی تعداد میں حبشی غلاموں کی درآمد شروع کی اور اُنھیں اپنی فوج میں بھرتی کر کے عرب آباد کاروں کا سیاسی زور کسی قدر گھٹا دیا۔

وفات اور جانشین[ترمیم]

ابراہیم نے بارہ برس تک امن و امان سے حکومت کی اور قیروان شہر میں شوال 196ھ بمطابق 5 جُولائی 812ء کو وفات پائی۔ اُس نے 56 سال عُمر پائی جب کہ اُس کی مدّت امارت 12 برس 4 ماہ اور 10 یوم تھی۔ اُس کا جانشین اُس کا بیٹا عبد اللہ الاوّل ہوا۔

اولاد[ترمیم]

ابراہیم کی قابل ذکر اولاد میں تین بیٹے تھے، تینوں کو ہی بادشاہی نصیب ہوئی۔

عبد اللہ بن ابراہیم[ترمیم]

عبد اللہ اوّل کے لقب سے امارت اغالبہ کے دوسرے امیر ہوئے اور باپ کی جانشینی کا شرف پایا۔ یہ ابراہیم کے بڑے بیٹے اور ولی عہد بھی تھے۔ باپ کے دور امارت میں طرابلس کی ولایت پر مامور رہے۔ 196ھ سے 201ھ تک 5 برس امارت کی۔

زیادۃ اللہ بن ابراہیم[ترمیم]

زیادۃ اللہ اوّل کے لقب سے امارت اغالبہ کے تیسرے امیر ہوئے۔ یہ منجھلے بیٹے تھے۔ 201ھ سے 223ھ تک 21 سال 7 ماہ اور 8 یوم حکومت کی۔

اغلب بن ابراہیم[ترمیم]

اغلب ثانی کے لقب سے امارت اغالبہ کے چوتھے امیر ہوئے۔ یہ سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ 223ھ سے 226ھ تک 2 سال 9 ماہ اور چند یوم حکومت کی۔ ان کے بعد امارت اغالبہ کے چھ مزید امراء تخت نشین ہوئے اور سبھی ان کی اولاد سے تھے۔

کردار اور شخصی خوبیاں[ترمیم]

ابراہیم ایک ماہر گھڑ سوار اور بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ مذہب سے لگاؤ بھی رکھتا تھا۔ قرآن کا حافظ تھا، شعر بھی کہہ لیتا تھا۔ اُس کے اساتذہ میں لیث بن سعد کا نام بھی ملتا ہے جو امام اہل مصر اور شیخ الاسلام تھے۔ ابن عذاری نے اُس کے متعلق لکھا ہے:

ابراہیم بن اغلب فقہ، ادب، شعر اور خطاب میں مہارت رکھتا تھا۔ جنگی فنون میں ماہر تھا۔ افریقا میں اُس سے بہتر سیرت کا حامل مِیں نے کسی کو نہیں پایا۔ سیاست کاری میں اُس سے بہتر کوئی نہ تھا نہ رعیت پروری میں اُس کا کوئی ثانی تھا۔ ان خوبیوں کے سبب قبائل اُس کے مطیع تھے۔ اُس نے شر پسندوں کو دبایا اور تمام اُمورپر سرکاری قبضہ برقرار رکھا۔

شمس الدین ذہبی نے بھی ابراہیم کی فصاحت، خطابت اور شعر و فقہ میں مہارت کا ذکر کیا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]