مندرجات کا رخ کریں

بیگم حضرت محل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بیگم حضرت محل
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1820ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فیض آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 اپریل 1879ء (58–59 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کھٹمنڈو   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن کھٹمنڈو   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات واجد علی شاہ   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد برجیس قدر   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فعالیت پسند ،  حریت پسند   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

بیگم حضرت محل کا نام زبان پر آتے ہی جنگ آزادی کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے۔ حضرت محل کا نام ہندوستان کی جنگ آزادی میں پہلی سرگرم عمل خاتون رہنما کے نام سے مشہور ہے۔ 1857–1858 کی جنگ آزادی میں صوبہ اودھ سے حضرت محل کی نا قابل فراموش جد و جہد تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں درج ہے۔ حضرت محل نے صنف نازک ہوتے ہوئے بھی بر طانوی سامراج و ایسٹ انڈیا کمپنی سے لوہا لیا۔ برطانوی حکومت کی ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے انھوں نے ہندوﺅں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر کے تحریک جنگ آزادی ہند 1857ء کو ایک نیا رخ دیا۔ بیگم حضرت محل پہلی ایسی قائد تھیں جنھوں نے برطانوی حکومت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور 20 برس جلا وطنی اور اپنی موت 1879 تک لگاتار برطانوی حکومت کی مخالفت کی۔ حالانکہ حضرت محل کے متعلق مورخین کو بھی زیادہ پختہ جانکاری نہیں ہے۔ شاید وہ فیض آباد کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں کچھ انگریزی مصنفین کے مطابق ان کا نام افتخار النساء تھا۔ نام سے لگتا ہے کہ ان کے آبا و اجداد ایران سے یہاں آکر اودھ میں بس گئے تھے۔ ان کی تعلیم ایک رقاصہ کی شکل میں ہوئی جس کا مقصد واجد علی شاہ کو متاثر کرنا تھا۔ نواب صاحب نے ان کو اپنے حرم میں جگہ دی۔ پی-جے-او-ٹیلر کے مطابق جب افتخار النساء کے یہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی تو ان کا رتبہ بڑھا اور انھیں نواب صاحب نے اپنی ازواج میں شامل کرکے حضرت محل کا لقب دیا اور انھیں شاہی خاندان میں ملکہ کا درجہ دیا۔ اپنے بیٹے برجیس قدر کی پیدائش کے بعد حضرت محل کی شخصیت میں بہت بدلاﺅ آیا اور ان کی تنظیمیں صلاحیتوں کو جلا ملی۔ 1856ءمیں برطانوی حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کر کے کلکتہ بھیج دیا۔ تب حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھال لی اور بیگم حضرت محل ایک نئے وجود میں سب کے سامنے آتی ہیں۔ ان کا یہ رخ اپنے وطن کے لیے تھا۔ جس کا مقصد تھا اپنے ملک سے انگریزوں کو باہر پھینکنا یہ مشعل لو، سبھی کے دل میں جل رہی تھی۔ لیکن اسے بھڑکانے اور جنون میں بدلنے میں بیگم حضرت محل نے ایک خاص کردارادا کیا۔ انھوں نے یہ ثابت کیا کہ عورت صرف گھر کی چہار دیواری کا نظام ہی خوبی سے نہیں سنبھالتی بلکہ وقت پڑنے پر وہ اپنے جوہر دکھا کر دشمنوں کو کھدیڑنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے دوران میں انھوں نے اپنے حامیوں جن کے دلوں میں اپنے ملک سے انگریزوں کے ناپاک قدموں کو دور کرنے کا جذبہ تھا۔ انگریزی حکومت کے خلاف منظم کیا اور جب ان سے اودھ کا نظام چھین لیا گیا تو انھوں نے اپنے بیٹے برجیس قدر کو ولی عہد بنا دیا۔ جنگ آزادی میں وہ دوسرے مجاہدین آزادی کے ساتھ مل کر چلنے کی حامی تھیں جس میں نانا صاحب بھی شامل تھے۔ جب برطانوی فوج نے لکھنؤ پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور ان کے سارے حقوق چھین لیے تو انھوں نے برٹش حکومت کی طرف سے دی گئی کسی بھی طرح کی عنایت کو ٹھکرادیا۔ اس سے بیگم حضرت محل کی خود داری کا پتہ چلتا ہے۔ وہ صرف ایک بہترین پالیسی ساز ہی نہیں تھیں۔ بلکہ جنگ کے میدان میں بھی انھوں نے جوہر دکھائے۔ جب ان کی فوج ہار گئی تو انھوں نے دوسرے مقامات پر فوج کو منظم کیا۔ بیگم حضرت محل کا اپنے ملک کے لیے خدمت کرنا بے شک کوئی نیا کارنامہ نہیں تھا۔ لیکن ایک عورت ہو کر انھوں نے جس خوبی سے انگریزوں سے ٹکرلی وہ معنی رکھتا ہے۔ 1857 کی بغاوت کی چنگاریاں تو ملک کے کونے کونے میں پھوٹ رہی تھیں۔ ملک کے ہر کونے میں اس کی تپش محسوس کی جا رہی تھی اسی چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے کا سہرا بیگم حضرت محل کے سر جاتا ہے۔ اترپردیش کے اودھ علاقہ میں بھی آزادی کی للک تھی۔ جگہ جگہ بغاوتیں شروع ہو گئی تھیں۔ بیگم حضرت محل نے لکھنؤ کے مختلف علاقوں میں گھوم گھوم کر لگاتار انقلابیوں اور اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے میں دن رات ایک کر دیا۔ ایک عورت کا یہ حوصلہ اور ہمت دیکھ کر فوج اور باغیوں کا حوصلہ جوش سے دگنا ہو جاتا۔ انھوں نے آس پاس کے جاگیر داروں کو بھی ساتھ ملا کر انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بیگم حضرت محل کا کردار جنگ آزادی کی اس پہلی جنگ میں نا قابل فرامو ش ہے۔ آج جب بھی 1857 کی بغاوت کا ذکر آتا ہے تو بیگم حضرت محل کا نام خود بخود زباں پر آجاتا ہے۔ انگریزوں کی مکاری اور چالاکی کو حضرت محل بہت اچھی طرح سمجھ چکی تھیں۔ وہ ایک دور اندیش خاتون تھیں۔ انگریزوں سے لوہا لینے کے لیے انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا۔ انتظامی حکومتی فیصلوں میں بیگم حضرت محل کی صلاحیت خوب کام آئی۔ بیگم حضرت محل کے فیصلوں کو قبول کیا گیا۔ بڑے بڑے عہدوں پر قابل عہد یدار مقرر کیے گئے۔ محدود وسائل اور مشکل حالات کے باوجود بیگم حضرت محل لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ بیگم حضرت محل نے خواتین کی ایک فوج تیار کی اور کچھ ماہرخواتین کو جاسوسی کے کام پر بھی لگایا۔ فوجی خواتین نے محل کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی۔ انگریزی فوج لگاتار ریزی ڈینسی سے اپنے ساتھیوں کو آزاد کرانے کے لیے کوشش کرر ہی تھی۔ لیکن بھاری مخالفت کی وجہ سے انگریزوں کو لکھنؤ فوج بھیجنا مشکل ہو گیا تھا۔ ادھر ریزی ڈینسی پر ناموں کے ذریعہ لگاتار حملے کیے جا رہے تھے۔ بیگم حضرت محل لکھنؤ کے مختلف علاقوں میں تنہا فوجیوں کا حوصلہ بڑھا رہی تھیں۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ مغل شاہ بہادر شاہ ظفرکے نظر بند ہوتے ہی انقلابیوں کے حوصلے کمزور پڑنے لگے۔ لکھنؤ بھی دھیرے دھیرے انگریزوں کے قبضہ میں آنے لگا تھا۔ ہینری ہیولاک اور جیمز آوٹ رام کی فوجیں لکھنؤ پہنچ گئیں۔ بیگم حضرت محل نے قیصر باغ کے دروازے پر تالے لٹکوا دیے۔ انگریزی فوج بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ بیگم نے اپنے فوجیوں میں جوش بھرتے ہوئے کہا ،

” اب سب کچھ قربان کرنے کا وقت آگیا ہے“-

انگریزی فوج کا افسر ہینری ہیولاک عالم باغ تک پہنچ چکا تھا۔ کیمپ ویل بھی کچھ اور فوج لے کر اس کے ساتھ جا ملا۔ عالم باغ میں بہت ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا۔ عوام کے ساتھ محل کے سپاہی شہر کی حفاظت کے لیے امنڈ پڑے۔ موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ دونوں طرف تیروں کی بوچھار ہو رہی تھیں۔ بیگم حضرت محل کو قرار نہیں تھا۔ وہ چاروں طرف گھوم گھوم کر سرداروں میں جوش بھر رہی تھیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے انقلابیوں کا جوش ہزار گنا بڑھ جاتا۔ وہ بھوکے پیاسے سب کچھ بھول کر اپنے وطن کی ایک ایک انچ زمین کے لیے مرمٹنے کو تیار تھے۔ آخر وہ لمحہ بھی آگیا جب انگریزیوں نے اپنے ساتھیوں کو ریزیڈنسی سے آزاد کرا ہی لیا۔ اور لکھنؤ پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ بیگم حضرت محل کی شخصیت ہندوستانی نسوانی سماج کی پیروی کرتا ہے وہ بے حد خوبصورت رحم دل اور نڈر خاتون تھیں۔ اودھ کی پوری قوم، عوام عہدے دار، فوج ان کی عزت کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کرنے کا جذبہ ان کی عوام میں تھا۔ انھیں کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ وہ عورت کی سر براہی میں کام کر رہے ہیں انھیں اپنی ا س لیڈر پر اپنے سے زیادہ بھروسا تھا۔ اور یہ بھروسا بیگم حضرت محل نے ٹوٹنے نہیں دیا۔ جب باغیوں کے سردار دلپت سنگھ محل میں پہنچے اور بیگم حضرت محل سے کہا،بیگم حضور آپ سے ایک التجا کرنے آیا ہوں۔ بیگم نے پوچھا وہ کیا؟ اس نے کہا۔ آپ اپنے فرنگی قیدیوں کو مجھے سونپ دیجیئے۔ میں اس میں سے ایک ایک کا ہاتھ پیر کاٹ کر انگریزوں کی چھاﺅنی میں بھیجوں گا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بیگم کے لہجہ میں سختی آگئی۔ ہم قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ تو خود کر سکتے ہیں اور نہ کسی کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔ قیدیوں پر ظلم کرنے کی روایت ہم میں نہیں ہے۔ ہمارے جتنے بھی فرنگی قیدی اور ان کی عورتوں پر کبھی ظلم نہیں ہوگا۔ اندازہ ہوتا ہے بیگم حضرت محل انصاف پسند اور حسن سلوک کی مالک تھیں۔ بیگم نے جن حالات اور مشکل وقت میں ہمت و حوصلے کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے وہ ہمارے لیے مثال ہے وہ بھلے ہی آج ہمارے بیچ نہ ہوں پر ان کا یہ قول عام ہندوستانیوں کے لیے ایک درس ہے۔ یہ ہند کی پاک و صاف سر زمین ہے۔ یہاں جب بھی کوئی جنگ بھڑکی ہے ہمیشہ ظلم کرنے والے ظالم کی شکست ہوئی ہے۔ یہ میرا پختہ یقین ہے۔ بے کسوں، مظلوموں کا خون بہانے والا یہاں کبھی اپنے گندے خوابوں کے محل نہیں کھڑا کر سکے گا۔ آنے والا وقت میرے اس یقین کی تائید کرے گا۔ جنگ کے بعد آخر کار بیگم حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی۔ ابتدا میں نیپال کے رانا جنگ بہادر نے انکار کر دیا۔ لیکن بعد میں اجازت دے دی۔ وہیں پر 1879 میں ان کی وفات ہوئی۔ کاٹھ منڈو کی جامع مسجد کے قبرستان میں گمنام طور پر ان کو دفنا دیا گیا۔15 اگست، 1962 میں ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے وکٹوریہ پارک میں ان کی یادمیں سنگ مر مر کا مقبرہ تعمیر کرا کر اسے بیگم حضرت محل پارک نام دیا۔ حضرت محل کا یہ کارنامہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت ناچار اور مظلوم نہیں۔ وہ وقت پڑنے پر مردوں کے ساتھ قدم ملا کر چل بھی سکتی ہے اور آگے بڑھ کر کوئی بھی ذمہ داری بہ خوبی نبھا بھی سکتی ہے۔ ضرورت ہے اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر انھیں استعمال کرنے کی اپنے وجود کو پہچان دینے کی-

  1. https://pantheon.world/profile/person/Begum_Hazrat_Mahal — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017