مندرجات کا رخ کریں

جاٹ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جاٹ
Jat
چودھری چرن سنگھ، پہلا جاٹ وزیراعظم بھارت، لال قلعہ، دہلی، یوم آزادی, 15 اگست 1979.
گنجان آبادی والے علاقے
بھارت اور پاکستان
زبانیں
ہریانویہندی زبانپنجابی زبانراجستھانیسندھی زباناردو
مذہب
ہندو مت • اسلام • سکھ مت

جٹوں کا پھیلاؤ

گنگا جمنا کے دوآبے اور راجپوتانے میں یہ جاٹ کہلاتے ہیں اور پنجاب میں یہ جٹ مشہور ہیں۔ اس طرح یہ جیٹ، جٹ، زت کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ پنجاب سے لے کر مکران کے ساحل تک گنگا کے کنارے تک جاٹ کثیر تعداد میں اور پنجاب میں ان کی اکثریت ہے۔ گو اب یہ مسلمان ہیں اور شمالی ہند میں یہ دوسری اقوام سے اور رجپوتانہ میں نصف کسان جاٹ ہوں گے۔ دریائے سندھ کے کنارے ان کی بہت سی قومیں مسلمان ہو چکی ہیں۔ غیر مستقیم پنجاب میں راوی کے مغربی اضلاع میں بیشتر جاٹ مسلمان تھے۔ لیکن وسطی پنجاب میں وہ اکثر سکھ اور جنوبی پنجاب میں وہ اکثر ہندو ہیں۔ جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ بلوچ بھی جاٹ نسل ہیں۔ بلوچ اور ان کا ایک بڑا قبیلہ جتوئی کی اصل جاٹ ہے۔ کیوں کہ بلوچ روایات کے مطابق میر جلال خان کی لڑکی جاتن سے منسوب ہے۔ جاتن جات کا معرب ہے۔ اس طرح جٹ اور جاٹ کے علاوہ جتک، جدگال اور دوسرے قبائل کی اصیلت جاٹ النسل ہے۔ یہ اگرچہ خود کو جاٹ نہیں مانتے ہیں اور بلوچ کہتے ہیں۔ سندھ کے سماٹ قبائل کی اکثریت جاٹ النسل ہے۔

جاٹ نسل

ایک مسلم جاٹ شتربان

جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے ان کی اصل یوٹی یا جوٹی ہے اور ان کا اصل وطن دریائے جیحوں اور دریائے سیحوں کے درمیان تھا، جہاں سے یہ نکل کر برصغیر تک پھیل گئے۔ وسطی ایشیا کے رہنے والے جاٹ اب مسلمان ہیں۔ تیمور لنگ نے ان کے بڑے خان کوکل تاش تیمور کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ یہ اس وقت بت پرست تھے اور بعد میں تیمور خود ان کا بڑا خان منتخب ہو گیا۔ مزید براں وہ کہتا ہے کہ جاٹ، تکشک یعنی ناگ بنسی اور چندر بنسی کے ہم نسل ہیں۔

لی بان کا کہنا ہے کہ یہ پنجاب و سندھ میں سب سے باوقت قوم ہے۔ ان میں شاز و نادر خارجی میل سے ٹھوڑا بہت تغیر پیدا ہوا ہے۔ تاہم ان کا عام ڈھانچہ حسب ذیل ہے۔ قد لمبا کاٹھی مظبوط چہرے سے ذہانت نمودار، جلد کس قدر سیاہ، ناک بڑی اور اونچی اور بعض اوقات خم دار اور ان کی آنکھیں چھوٹی اور سیدھی، گال کی ہڈیاں کم ابھری ہوئیں ہیں، بال سیاہ اور کثرت سے ڈاھاڑیاں چگی اور کم بالوں کی، بلند قامت خوش نظر، ان کی چال سیدھی اور شاندار۔ جٹ دراز قد ہوتے ہیں ان کا جسم گھٹا ہوا اور مظبوط ہوتا ہے اور رنگ سانولہ ہوتا ہے۔ یہ مانا جا سکتا ہے کہ جاٹ نسل کے لحاظ سے وہ آریا ہیں۔ اگرچہ بعض مصنفین نے انھیں اصل کے اعتبار کے لحاظ سے سیتھائی آریائی قرار دیا ہے۔ جس کی بڑی شاخ میں آگے چل کر مختلف قبائل کی آمزش ہو گئی ہے۔

اگرچہ جنرل کنگم کا کہنا ہے کہ جاٹ اندوسیتھک ہیں اور سکندر کے بعد آئے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تورانی یا اندوسیتھک نہ ڈراویڈوں سے زیادہ ملی نہ آریوں سے۔ تاہم اس میل کا اثر جو وقوع میں آیا ہے، وہ جاٹوں میں موجود ہے۔ مثلاً بعض ان میں سیاہ فام ہیں اور بعض کا رنگ قدر صاف ہے، جیسا کہ راجپوتوں کا۔ کورو کی ایک شاخ جارٹیکا کے نام سے مشہور تھی اور پنجاب میں آباد تھی۔ یہ غالباً جٹوں کے اسلاف تھے۔ جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ جاٹوں کی روایات کے مطابق وہ پانچویں صدی عیسوی کے مابین دریائے سندھ کے مغرب سے آکر پنجاب میں آباد ہوئے تھے۔ جاٹ اگرچہ راجپوتوں کی چھتیس راج کلی میں شامل ہیں، لیکن راجپوت نہیں کہلاتے ہیں اور نہ راجپوت جاٹوں سے شادی بیاہ کرتے ہیں۔ ان کا شمار نچلی اقوام میں ہوتا ہے۔ ان سے لڑکی لے لی جاتی ہے لیکن لڑکی نہیں دی جاتی ہے۔

جٹوں کے متعلق نظریات

ایک سکھ جاٹ

لی بان کا کہنا ہے کہ خطۂ پنجاب کے اصل باشندے تورانی الاصل ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تورانی جات آریوں کی چڑھائی کے وقت سارے ملک کے مالک تھے اور باآسانی یہ ان کے محکوم ہو گئے۔ آریا فاتحین نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان کو درمیانی ذات ویش یا تجارت پیشہ ذات میں ان کو شامل کر دیا۔ برخلاف اس ملک کے اصل باشندوں کو شودر بنا دیا۔ گویا جاٹوں کی رضامندی سے آریا اس ملک کے حاکم بن گئے۔ اس باہمی رضامندی کا پتہ تخت نشینی کی رسم میں ملتا ہے۔ کیوں کہ بادشاہ تاج جاٹوں کے ہاتھوں سے لیتا تھا۔

ویمرے کا کہنا ہے کہ جیتی نام ان منگولوں کا تھا، جو منگولیا کی سرحد پر رہتے تھے۔ ان کی نسل کے جو لوگ ہیں وہ بروتی ہیں۔ وسط ایشیا میں اب ان منگولوں کو چیتے مغل (سرحدی مغل) کہتے ہیں۔ ترکی میں جیت سرحد کو اور منگول کو مغل کہتے ہیں۔

بی ایس ڈاہیا کہا کہنا ہے کہ جٹ یہ لفظ بدزات خود بہادری عمل اور پیش قدمی کی علامت ہے شمشیر زنی اور ہل لانے کے ماہر جاٹوں نے مشرق میں منگولیا سے چین سے لے کر مغرب میں اسپین اور انگلستان تک شمال میں سکنڈے نیوبا اور نوڈ گروڈ سے لے کر جنوب میں پاک و ہند ایران اور مصر تک ایشیا اور یورپ کی سرزمین پر تیر و تبر سے اپنا نام رقم کیا۔ برصغیر ایران روس اور جٹ یا جاٹ اور ترکی و مصر میں جاٹ عرب ممالک میں زظ یا جظ، منگولوں کی زبان میں جٹیہ سویڈن اور ڈنمارک میں گوٹ اور جرمنی اور دیگر زبانوں میں گوٹھ یا گوٹ، ینی میں یوچی (جس کا تلفظ گٹی ہے) کہلاتے ہیں۔ جینی مصنف وردھمان شاکا اور جرٹ قبائل کا ذکر کرتا ہے چندر گومن نے لکھا ہے کہ جاٹوں نے ہن قبائل کو شکست دی یشودھرمن اور گپت فرمانروا جاٹ تھے اور یہی لوگ تھے جنھوں نے ہنوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اگرچہ ہن خود بھی جاٹ تھے۔

شاکا، کشان، ہن، کیداری، خیونی (چیونی) اور تکھر (تخار) جنیں الگ الگ نسل شمار کیا جاتا ہے، گو وسطی ایشائی میدانوں میں انھیں بعض اوقات ایک دوسرے کا پڑوسی ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی نسل تھی جاٹ، مگر ان کے حکمران خاندانوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد اپنا قبائلی نام اختیار کیا۔ وسط ایشیا کا علاقہ آریائی اقوام کا اصل وطن ہے۔ یہی وجہ کہ برصغیر کی تمام روایات میں اس کے ساتھ تقدس وابستہ ہے۔ ویدی ادب سے لے کر تمام تحریروں میں شمال میں دیوتاؤں کی سرزمین ہے۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ انڈو ایرانی، ساکا اور یورپی سیھتی ایک ہی تھے۔ ہسٹری آف ورلڈ کے مطابق سیتھی وسط ایشا اور شمالی یورپ کے ان قبائل کا نام ہے جو ہمیشہ اپنے پڑوسی نسلوں سے سرپیکار رہتے تھے۔ سیتھہ ایک قدیم علاقہ کا نام ہے جو جو بحیرہ اسود کے مشرق اور دریائے جیحوں و سیحون (دریائے آمو و سیر) کی وادی سے لے کر دریائے ڈینیوب اور دریائے ڈان تک پھیلا ہوا تھا۔ ہیروڈوٹس کہتا ہے کہ مساگیٹے سیتھی قوم کی اولاد ہیں۔

پی سائیکس گتی کہلانے والوں کا ذکر کرتا ہے۔ جنھوں نے 2600 م ق میں سمیر اور اسیریا وغیرہ پر قبضہ جما لیا تھا۔ چینی ماخذ میں بیان کیا گیا ہے کہ وی قبائل کی تاریخ 2600 ق م تک پیچھے جاتی ہے۔ چین کے وی، ایران کے داہی، یونان کے دائے اور موجودہ دور کے داہیا جاٹ ایک ہی ہیں جنوبی ایشیا کے کے جاٹ وہی لوگ ہیں جو ایران کی تاریخ میں گتی اور چینیوں کے یوچی (جس کا چینی تلفظ گتی ہے) کے طور پر سامنے آتے ہیں ان کا اصل وطن سرحدات چین سے لے کر بحیرہ اسود تک وسط ایشیا ہے۔ ہیروڈوٹس اور دیگر یونانی مورخ انھیں گیتے یا مساگیتے کہتے ہیں۔ موخر الذکر نام انہی قبائل کا بڑا عنصر۔

ولسن کا کہنا ہے کہ راجپوت قبائل، راٹھور، پوار اور گہلوٹ وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے۔ یہ چاروں قبائل اصل میں جاٹ ہیں جنہیں بعد میں راجپوت کہا جانے لگا ہے۔ کیوں کے یہ اس وقت حکمران تھے۔ اس بنا پر راجپوت یا راج پتر یعنی راجاؤں کی اولاد کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کی اصل پہلوی کلمہ وسپوہر (شاہ کا بیٹا) سے ہے۔ ولسن انھیں غیر ملکی تسلیم کرتا ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے ساکا اور دیگر قبائل کے ساتھ مل کر برصغیر کی تسخیر کی تھی۔

جاٹوں کا کردار

ایک جاٹ کسان

جاٹوں نے کبھی برہمنی مذہب کی برتری اور بالادستی قبول نہیں کی اور یہی وجہ ہے انھوں نے رسمی انداز میں باقائدہ ہندو مت قبول نہیں کیا۔ یہی پس منظر تھا جس میں برہمنوں نے اور ان کی تقلید میں دوسری ذاتوں نے جاٹوں کو کشتریوں کا نچلا طبقہ بلکہ شودر خیال کرتے ہیں۔ لیکن جاٹوں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی اور کتاب ہندو قبائل اور ذاتوں میں برصغیرٖٖٖٖٖٖٖٖ کی قدیم چھتیس راج کلی میں جاٹوں کا نام ضرور ملتا ہے لیکن کہیں بھی انھیں راجپوت ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ اس آخری جملے میں بنیاد یہ ہے کہ راجپوت رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل ہونے والے جاٹ اور گوجر ہیں جن لوگوں نے رسمی طور پر متصب برہمنی نظام کی شرائط اور قبول کرنے سے انکار کیا انھیں رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل نہیں کیا گیا اور وہ آج تک وہی جاٹ، گوجر اور آہیر ہیں۔ یہی وجہ ہے جاتوں اور راجپوتوں مشترک قبائلی نام ہیں۔ اس طرح راجپوت برہمنی رنگ میں رنگے جاٹ اور گوجر ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم راجپوتوں کے ظہور سے بہت پہلے صرف جاٹوں اور گوجروں کو وسطی برصغیر، راجستان گجرات سندھ میں پاتے ہیں۔ اگر کوئی راجپوت کسی جاٹ عورت سے شادی کرلے وہ جاٹ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر وہ یا اس کی اولاد بیواہ کی دوبارہ شادی کا طریقہ اپنالے تو وہ جاٹ بن جائے گا۔ یہ مسلے کا اصل نقطہ ہے ایک راجپوت اور جاٹ میں صرف بیواہ کی دوسری شادی کا ہے۔ بیواہ کی شادی ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن راجپوتوں کو براہمنوں کے غلط، غیر اخلاقی اور غیر منصفیانہ نظریات کے تحت اس بارے میں سننا بھی گوارا نہ تھا۔ بیواہ کی شادی کی وہ اہم ترین نقطہ اختلاف تھا جو کوہ آبو کی قربانی کے موقع پر جاٹوں اور برہمنوں کا اختلاف ہوا۔ جن لوگوں نے برہمنوں کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کیا وہ راجپوت کہلائے۔ اس کے برعکس جنھوں نے بیواہ کی شادی کرنے پر اصرار کیا وہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کے وجود جاٹ کہلائے۔

سلطان محمود غزنوی کو ہند پر حملوں کے دوران بڑا تنگ کیا۔ چنانچہ ایک حملہ خاص طور پر ان کے خاتمہ کے لیے کیا اور چھ سو کی تعداد میں خاص قسم کی کشتیاں تیار کرائیں جس میں تین تین برچھے لگے ہوئے تھے۔ ان کشتیوں کو دریائے سندھ میں ڈال کر ہر کشتی پر بیس بیس سپاہی تعنات کیے اور باقی ماندہ فوج کو دریائے سندھ کے کنارے پیدل چلنے کا حکم دیا۔ جاٹوں کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے اپنے بیوی بچے کسی جزیرے پر بھیج کرکوئی چار ہزار یا آٹھ ہزار کشتیوں پر سوار ہوکر محمود غزنوی کی فوج پر حملہ آور ہوئے۔ باوجود کثرت کے کثیر تعداد میں جاٹ مارے گئے۔ محمود غزنوی نے جزیرے پر پہنچ کر جاٹوں کے اہل و عیال کو گرفتار کر لیا۔

اورنگزیب جس زمانے میں دکن میں مصروف تھا، جاٹوں نے غنیمت جان کر اپنے سرداروں کی قیادت میں عام آبادی پر حملے کیے۔ یہاں تک انھوں نے اکبر کے مقبرے کو توڑنے کی کوشش کی۔ اورنگ زیب نے ان کی سرکوبی کے لیے مقامی فوجداروں کو مقرر کیا۔ لیکن جب اورنگ زیب کے بعد سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرنے لگا تو بھرت پور اور اس گرد نواح کے جاٹوں نے اپنے سردار سورج مل کی سرکردگی میں آگرہ اور دہلی کے درمیانی علاقہ میں دہشت پھیلادی۔ ان کے ظلم و ستم سے غضبناک ہوکر احمد شاہ ابدالی نے ان کی گوشمالی کی۔ لیکن ان کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کرسکا۔ بعد میں رنجیت سنگھ ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ ریاست مختصر عرصہ کے لیے قائم ہوئی تھی۔

سکھ جو اٹھارویں صدی کے آخر تک پنجاب کے حاکم بن چکے تھے۔ ان کی سلطنت کے قیام میں نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے بھر پور مدد دی اور ان حملوں کی بدولت مغلیہ سلطنت نہایت کمزور ہو گئی اور سکھ ایک قوت کے ساتھ ابھرے اور انھوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کو اس کے انجام تک پہنچایا۔ سکھوں کی اکثریت جاٹوں پر مشتمل تھی اور جاٹوں کا عمل دخل بہت تھا۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں انگریزوں کے خلاف تحریک جلی جس کا مشہور سلوگن جٹا پگڑی سنھال جٹا تھا۔ اس تحریک میں حصہ لینے والے بھی سکھ تھے۔ اس کا روح رواں مشہور انقلابی بھگت سنگھ کا چچا۔

جاٹوں کے خصائص

جاٹ گنوار پنے اور بے وقوفی میں ضرب مثل ہیں اور لین دین میں سادہ لوح ہوتے ہیں۔ اپنے ہم جنسوں کے مقابلے میں بھینسوں اور گایوں کا انھیں زیادہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا پیشہ زیادہ تر کاشکاری ہے۔ وہ نہ صرف دلیر واقع ہوئے ہیں بلکہ اچھے سپاہی واقع ہوئے ہیں۔ محمد بن قاسم کے مقابلے میں انھوں نے مزاحمت کی تو محمد بن قاسم نے ان کی بڑی تعداد گرفتار کر لیا اور انھیں حجاج بن یوسف کے پاس بھجوا دیا۔ ہندو جاٹوں میں ایک سے زائد شادی کا رواج تھا۔۔ ۔ چچ نے جٹوں پر اچھوتوں کی طرح پابندیاں عاعد کیں تھیں۔ اس کے متعلق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا کہنا ہے کہ جاٹ سندھ کے قدیم باشندے تھے۔ چچ نامہ میں ہے کہ چچ نے لوہانہ کے جٹوں سے جو شرائط منوائیں ان میں مصنوعی تلوار کے علاوہ کسی قسم کا ہتھیار نہیں باندھیں گے، قیمتی کپڑے اور مخمل نہیں پہنیں گے، گھوڑے پر بغیر زین کے بیٹھیں گے، ننگے سر اور ننگے پیر رہیں گے، گھر سے باہر نکلتے وقت کتے ساتھ رکھیں گے، گورنر کے مطبخ کے لیے لکڑی کے علاوہ رہبری اور جاسوسی کے کام انجام دیں گے۔

مذہب

جاٹوں میں تین مذہب کے لوگ ہیں۔ مسلمان جو دریائے سندھ کے نچلے والے حصہ میں رہتے ہیں، سکھ پنجاب میں اور ہندو جو راجپوتانہ میں رہتے ہیں۔

جاٹ قبائل

ایک جاٹ
  • ، ابر = ایلاوت، اندار، آنتل، آریہ، ایساکھ، اتوال، عطری، اولکھ، اونکھ، اوہلان، اوجھلان، اوجلہ، اتار، اوہلان، اوڈھران
  • ، ببر، بگداوت، بجاد، باجوہ، بل، بلہن، بلہار، بان، بینس / ونیس، بسی، باٹھ، بلاری، بنہوال، بھنگال/ بھگو، بھنڈر، بھلی، بیلا، بسرا، بھیڈی، بھوپارائے، بھلر، بھڑنگ، بسلا، برار، بدھوار، بورا، بسرا، بھمبو
  • ، پاہل پ، لاول، پنکھال، پائے سر، پنیچ، پنوں، پنیگ، پریہار، پرودا، پھور، پھاروے، پھوگٹ، پھلکا، پیرو، پوتالیا، پونیا، پنگال، پلکھا، پرادا
  • ، پوتل/پوتلیا، تنوار، تور، تھنڈ
  • ، ٹکھرٹاہلان، ٹنگ، ٹک، ٹاٹڑان، ٹبواتھیا، ٹھاکران، ٹوانہ، ٹسارٹومر
  • ، جکھد، جگلین جلوٹا، جنجوعہ، جہل، جنوار، جٹاسرا، جڑانہ، جھاجھریا، جوئیہ، جون/ ہون، جوڑا، جاکھڈ
  • ، چاہل، چھٹہ، چوہان/چوہان، چبک، چیمہ، چھلڑ، چھکارا، چھونکر، چھینا، چمنی، چدھڑ،
  • ، دباس /دواس، ڈاگر/ داگر، دھاما، ڈھا/ ڈہایا، دلال، ڈھیل/ول، ڈالتا، ڈانگی، دراد، ڈسوالاس، دیول، دھامی/دھاما، ڈھالیوال، ڈھاکا، دھنکھڈ، ڈھانچ، ڈھانڈا، دھنویا، دھارن، ڈھلون، ڈھنڈسا، دھنڈ وال، ڈھونچک، دھل، دوہان، ڈاہیا
  • ، رائے، رانا، رانجھا، راٹھی، راٹھول، راٹھور، رندھاوا، راپادیا، راوت، ریڈھو، ریار، راج، روہیل/روہیلہ، راسٹری
  • ، سانولا، سہوتا، سہروت، سلار، سلکان، سامل، سمرا، سہن پال، سنگا، سنگدا، سنگوان، سنسوار، سندھو، سپرا، سرن، سروہا/ سروہی، سراٹھ، ساسیسیکھون، سیوچ، سیوکند، سیوران، شاہی، شیر، گل سویاسنگروت، سدھو، کاوار، سوہل، سولگی، سولنگی، سوہاک، سیال،
  • ، کھنگس، کادیان، کجلا، کاک، کاکڑاں / کاکڑ، کاٹھیا، کلان، کاہلون، کلکل، کانگ

رائے،کھرل، کٹاری، کشوان، کھر، کھیر، کھرپ/ کھرب، کھتری، کھٹکل، کھوکھر، کلیر، کوہاد، کلار، کوندو، کنتل، کٹاریا/کٹار

  • ، گالان، گتھوال، گورایہ، گزوا، گھمن، گور/ گوریا، گریوال، گلیا، گوہیل، گمر

،گرلات، گوندل، گسر، گوپی رائے، گکلن، گل/گیلانی، گزوا، گوھا

  • ، ہالا، ہنس، ہیر، ہدا، ہینگا
  • ، لالی، لکھن پال، لامبا، لاتھر، لتھ وال، لوچب، لوہان، لوہاریا، لنگڑیال
  • ، مچھر/ ماتھر، مدیرنا، مدھان، ماہل، ملک، مل، ملھی، منکا/ مان، منگٹ، مند/منڈ، مندر، ماولا، موہلا، منہاس، مردھا، مٹھا، موکھر، مور، مانگٹ، مدرا، مدیرنا
  • ، ناپال، نلوہ، ناندل، نین، نیپال، نروال، نوہار، ناصر، ناہر، نجار، نونیا/ نون
  • ، ورک، ورائچ، وٹ دھن، وَلہ

حوالہ جات

  • جاٹ۔ معارف اسلامیہ
  • جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد اول
  • بی ایس ڈاہیا۔ جاٹ
  • اعجاز الحق قدوسی۔ تاریخ سندھ
  • سیّد سبط الحسن صغیم، سکھ جذبوں کا سفر، سکھ دلوں کی کہانی۔ قومی ڈائجسٹ
  • احمد یار خان، رات کا راز
  • ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، تقلیمات چچ نامہ
  • لی بان، تمذن ہند
  • اکرام علی ملک۔ تاریخ پنجاب
  • بلوچستان گزٹیر
  • ویمرے۔ تاریخ بخارا
  • حامد اللہ کوفی، چچ نامہ
  • ابسن پنجاب کی ذاتیں

بیرونی روابط