مفتی محمود مدراسی شافعی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مفتی محی الدین محمود مدراسی شافعی(1269ھ-1345ھ) ہندوستان کے شافعی مسلک کے بہت بڑے عالم و مفتی تھے

آپ قاضی بدرالدولہ قاضی صبغۃ اللہ مدراسی کے نامور فرزند، شمس العلماء قاضی عبید اللہ مدراسی کے بھائی، اور مفتی قاضی محمد حبیب اللہ مدراسی شافعی سابق سر قاضی مدراس کے عم محترم تھے، متی محمود اپنے زمانے کے بہت بڑے مفتی تھے، قاضی حبیب اللہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ جب فتویٰ لکھنا شروع کیا تو اپنے والد اور اپنے چچا مفتی محمود کی زیر نگرانی فتویٰ نویسی کی ابتداء کی، آپ ان کے فتویٰ پر جواب الصحیح لکھا کرتے تھے

ولادت

آپ کی ولادت 25 ربیع الاول 1269ھ کو ہوئی

سلسلہ نسب

آپ کے آباواجداد بصرہ سے ہجرت کر کے کوکن تشریف لائے، سلسلہ نسب فقیہ عطا احمد شافعی سے جا ملتا ہے، فقیہ عطا احمد شافعی کے فرزند مخدوم فقیہ اسحاق کی قبر گجرات میں ہونا مشہور ہے، اور آپ کے اجداد کئی علماء عادل شاہی حکومت میں قاضی کے عہدے پر فائز رہے، آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے

"مفتی محی الدین محمود بن قاضی محمد صبغۃ اللہ بن مولوی محمد غوث بن مولوی ناصر الدین محمد بن قاضی نظام احمد صغیر بن محمد عبد اللہ شہید بن نظام الدین کبیر بن قاضی حسین لطف اللہ بن قاضی رضی الدین مرتضیٰ بن قاضی محمود کبیر بن قاضی احمد بن فقیہ ابو محمد بن مخدوم فقیہ اسماعیل بن مخدوم فقیہ اسحاق بن فقیہ عطا احمد شافعی"

مفتی مدرسہ محمدیہ مدراس

مدرسہ محمدیہ کے قیام کے بعد آپ اس کے مفتی مقرر ہوئے، آپ شافعی مذہب کے مطابق فتویٰ دیتے تھے، قاضی حبیب اللہ مدراسی آپ کے شاگردوں میں ہیں[1]

تفسیر قرآن

آپ صرف ایک مفتی ہی نہیں تھے، بلکہ اپنے زمانے کے محدث، مفسر اور شیخ طریقت بھی تھے، اپنے والد قاضی صبغۃ اللہ مدراسی اور اپنے بھائی مفتی محمد سعید مدراسی کی وفات کے بعد انکی تفسیر کا تکمیلہ لکھنا شروع کیا، لیکن آپ بھی اس تفسیر کو مکمل نہ کر سکے، سورہ رحمن کی آیت فیہا فاکھۃ ونخل و رومان تک پہنچے تھے آپ کا انتقال ہوگیا، ان کے بعد آپ کے بھتیجے مولانا ناصر الدین محمد بن شمس العلماء قاضی عبید اللہ مدراسی نے یہ کام اپنے ذمہ لیا، اور اس کو اختتام تک پہنچایا، چنانچہ وہ اپنی تفسیر کی ابتدا میں لکھتے ہیں

"حضرت مولانا مغفور(یعنی مولوی مفتی محمود صاحب)علماء سلف کا ایک نمونہ تھے، افسوس کہ گردش ایام نے ان کے فیوضات و برکات سے مستفید ہونے کے لیے زیادہ مہلت نہ دیا، چونکہ یہ تفسیر جو میرے بزرگان کی تالیف شدہ ہے نامکمل رہ گئی اب کمترین صرف تبرکا اس کے تکمیل کے ارادہ سے لکھنا شروع کیا ہے [2]

بیعت و خلافت

مفتی محمود مدراسی کا اصلاحی تعلق اپنے زمانے کے مشہور شیخ طریقت حضرت ابو احمد مجددی بھوپالی سے تھا، آپ ہی سے بیعت ہوئے اور اجازت بیعت وخلافت حاصل ہوئی[3]

آپ کا شجرہ طریقت اس طرح ہے

خلفاء

آپ کے خلفاء کے اسماء معلوم نہ ہو سکے، البتہ مولانا محمد اسماعیل اکرمی بھٹکلی آپ کے شاگرد و خلیفہ تھے


وفات

آپ کی وفات 10 جمادی الثانی 1345ھ کو ہوئی

حوالہ جات[ترمیم]

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔
  1. مفتی قاضی محمد حبیب اللہ، از عبید اللہ ایم اے، ناشر مدرسہ محمدیہ مدراس، صفحہ 16
  2. خانوادہ قاضی بدر الدولہ، جلد اول، از پروفیسر محمد یوسف کوکن عمری، صفحہ 493
  3. امام اہل السنت حضرت علامہ محمد عبدالشکور فاروقی لکھنوی حیات وخدمات،از پروفیسر محمد عبد الحی فاروقی،صفحہ168